رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بیان میں پچھلے چالیس برس کے دوران طے کئے گئے قابل فخر راستے اور ایران کو ایرانی قوم کے شایان شان مقام تک پہنچانے میں انقلاب اسلامی کی خیرہ کنندہ برکات پر روشنی ڈالی ۔
انہوں نے اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ ریلی میں ایرانی عوام کا جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ایرانی قوم کا شکرگزار ہوں جس نے انقلاب کی ریلیوں میں اپنی تاریخی شرکت سے دشمنوں کو ایک بار پھر مایوس کردیا.
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے دوسرے قدم کے عنوان سے اپنے بیان میں ایرانی قوم اور خاص طور پر جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے دوسرے قدم میں خود سازی ، تمدن سازی اور معاشرے پر توجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی زندگی کی نئی فصل رقم ہوگی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے اس اہم اور اسٹریٹیجک بیان میں ملک کے مستقبل کی حقیقت پسندانہ امید نیز دوسرا بڑا قدم اٹھانے کے لئے نوجوانوں کے بے بدیل کردار پر تاکید اور نوجوانوں اور مستقبل کے معماروں کو مخاطب کرتے ہوئے اس عظیم جہاد کے لئے لازمی اقدامات کو سات بنیادی شقوں کی صورت میں بیان فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی کے بیان میں فرمایا: ایرانی عوام کا پرشکوہ انقلاب عصر حاضر کا سب سے بڑا اور عوامی ترین انقلاب ہے اور وہ واحد انقلاب ہے جس نے اپنی امنگوں سے خیانت کیے بغیر چالیس برس کا قابل فخر راستہ طے کیا ہے اور تمام تر وسوسوں کے مقابلے میں جو بظاہر ناقابل شکست دکھائی دیتے تھے، اپنے اصل نعروں کو محفوظ رکھا ہے اور اب خود سازی، سماج پروری اور تہذیب سازی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس پیغام میں ایرانی عوام کے اسلامی انقلاب کو طاقتور لیکن مہربان اور حتی مظلوم انقلاب قرار دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی انقلاب ایران نے کسی بھی معرکے میں چاہے امریکہ کے ساتھ ہو یا صدام کے ساتھ، پہلی گولی نہیں چلائی اور ہر معاملے میں دشمن کے حملے کے بعد اپنا دفاع کیا اور البتہ دشمن کے حملے کا ٹھوس جواب بھی دیا۔
انہوں نے اپنے پیغام میں ملک کی سلامتی و ارضی سالمیت، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت، بنیادی حیاتی، اقتصادی اور ترقیاتی ڈھانچے کی تعمیر، انتخابات جیسے سیاسی معاملات میں عوامی مشارکت میں قابل دید حدتک اضافے، عوام کی سیاسی فکر اور عالمی مسائل کے بارے میں ان کے نظریات کے ارتقا، ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم، معاشرے کے عمومی ماحول میں معنوی اور اخلاقی قدروں میں اضافے، عالمی سامراجیوں، منھ زوروں اور ان کے سرخیل امریکہ کے خلاف استقامت کو اسلامی انقلاب کے نتائج کے چیدہ چیدہ نمونے قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کا اسلامی انقلاب ایک زندہ اور باعزم انقلاب ہے اور اپنی لچک کے ذریعے اپنی غلطیوں کی تصحیح کرنے کے لئے آمادہ ضرور ہے لیکن اس کا مطلب اصولوں سے ہٹنا نہیں اور نہ ہی کمزوری کا اس میں کوئی گزر ہے۔
آپ نے فرمایا: اسلامی انقلاب، حکومت کے قیام کے بعد جمود اور خاموشی کا شکار ہوا نہ ہو گا اور انقلابی جوش و جذبے اور سیاسی اور سماجی نظم کے درمیان کوئی تضاد اور ناسازگاری محسوس نہیں کرتا، بلکہ انقلابی نظام کے نظریے کا تا ابد دفاع کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے بیان میں آیا ہے کہ آج کا طاقتور ایران بھی آغاز انقلاب کی مانند، سامراجی طاقتوں کی محاذ آرائی سے روبرو ہے لیکن اس میں معنی خیز فرق پایا جاتا ہے۔ اگر ان دنوں اغیار سے چھٹکارہ پانے، تہران میں اسرائیل کے سفارت خانے کی بندش اور امریکی جاسوسی کے اڈے کی رسوائی کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی تھی تو آج اسرائیل کی سرحدوں کے قریب ایران کی طاقتور موجودگی، مغربی ایشیا میں امریکی اثرو رسوخ کی بساط لپیٹنے، ایران کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کے قلب میں فلسطینی جیالوں کی مجاہدانہ کارووائیوں کی حمایت اور اس علاقے میں حزب اللہ اور تحریک مزاحمت کے دفاع کے معاملے پر کشمکش ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: امریکی ایک زمانے میں یہ سمجھ رہے تھے کہ چند خود فروختہ ایرانیوں یا چند ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے وہ ایران کے اسلامی نظام اور ملت ایران پر قابو پا لیں گے تو آج انہیں اسلامی جمہوریہ کا سیاسی اور سیکورٹی بنیادوں پر مقابلہ کرنے کے لئے خطے کے معاند اور مرعوب ملکوں کے بڑے اتحاد کی ضرورت ہے البتہ اس مرحلے میں بھی امریکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آپ نے اپنے پیغام میں، علم و تحقیقات، روحانیت و اخلاق، معیشت و انصاف، بدعنوانیوں کے خلاف مہم، ملک کی آزادی و خود مختاری، قومی عزت و وقار، خارجہ تعلقات، دشمنوں کی حدود کا تعین اور زندگی کے اسلوب و چلن کے حوالے سے ایرانی عوام کو اپنے مشوروں سے بھی نوازا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی حکومت کو ملکی وسائل کی تقسیم ، فلاح و بہبود ، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ترقی اور پیشرفت کے لحاظ سے دنیا کی کامیاب حکومتوں کی صف میں قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی مشکلات حل کرنے کے لئے دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ناقابل معافی گناہ ہے۔
انہوں نے فرمایا: اگر کوئی صرف یہ خیال کرے کہ ملک کی معاشی مشکلات کی اصل وجہ پابندیاں ہیں اور پابندیوں کی وجہ دشمنوں کے سامنے نہ جھکنا اور سامراجیت کے خلاف ایران کی مزاحمت ہے اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ دشمنوں کے سامنے سر جھکانا ہے تو وہ بڑی غلطی کا شکار ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک کی پیشکش ہمیشہ جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آج ایرانی قوم نہ صرف جرائم پیشہ امریکہ بلکہ بعض یورپی حکومتوں کو بھی ناقابل بھروسہ سمجھتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی موجودہ حسن روحانی حکومت سے مطالبہ کیا : وہ ہرگز انقلابی اور قومی اقدار سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور مغرب کی کھوکھلی دھمکیوں سے خوفزدہ نہ ہو اور تمام حالات میں وطن عزیز ایران اور قوم کی عزت کی پاسداری کرے۔
آپ نے فرمایا: ایک دور میں دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی اورعظیم دینی تحریک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ۔ انقلاب اسلامی نے قدرت و استحکام اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ میدان میں قدم رکھا اور دنیا اور دین کو ایک ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا اور نئے اسلامی عصر کا اعلان کردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عظیم دینی تحریک کے خلاف عالمی سامراجی طاقتوں کا رد عمل قدرتی امر تھا اور انھوں نے اس عظیم دینی اور اسلامی تحریک کو دبانے کے لئے اپنی پوری طاقت اور قدرت کا استعمال کیا لیکن انھیں اسلامی جمہوریہ ایران کی دینی تحریک کے مقابلے میں شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ملک کو سرحدی ، ارضی سالمیت اور سلامتی و سکیورٹی جیسے خطرات کا سامنا کرنا پڑا اور ان تمام خطرات کے پیچھے امریکی سامراجی ہاتھ تھا انقلاب اسلامی نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں کامیابی حاصل کرکے امریکہ کے تمام ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔